اک ماہر ورتاوی جیسے کھانا بانٹتی ہے
تیری محبت ایسے دانہ دانہ بانٹتی ہے
صبحوں کے کشکول میں جس نے سورج ڈالے ہیں
راتوں کو تاریکی کا نذرانہ بانٹتی ہے
تنہائی ماں جائی ہماری اس پر لاکھ سلام
ویرانی کا بوجھ اٹھا کر شانہ بانٹتی ہے
ہم کو وقت اکٹھا کرتے عمریں لگتی ہیں
وہ لمحوں میں صدیوں کو روزانہ بانٹتی ہے
کچھ پیڑوں پر کم عمری میں بُور آ جاتا ہے
کچھ لوگوں میں جلدی قسمت دانہ بانٹتی ہے
باقی روز دعاؤں کی دہلیز پہ کٹتے ہیں
وہ رزقِ تکلیف مجھے ماہانہ بانٹتی ہے
ایک سخی طغیانی مجھ ساحل کی مٹی کو
دریا کی زرخیزی کا شکرانہ بانٹتی ہے
گردش اپنی جاری رہنے کی تمثالوں سے
رکے ہووں کو چلنے کا پروانہ بانٹتی ہے
پھولوں کو خوشبو کا لنگر روز نہیں ملتا
انہیں بھی موسم کی دیوی سالانہ بانٹتی ہے
میں آنکھوں سے منظر کا رس پیتا رہتا ہوں
وہ کھڑکی سے رنگوں کا مے خانہ بانٹتی ہے
منیر جعفری
No comments:
Post a Comment