Wednesday, 17 February 2021

اک ماہر ورتاوی جیسے کھانا بانٹتی ہے

 اک ماہر ورتاوی جیسے کھانا بانٹتی ہے

تیری محبت ایسے دانہ دانہ بانٹتی ہے

صبحوں کے کشکول میں جس نے سورج ڈالے ہیں

راتوں کو تاریکی کا نذرانہ بانٹتی ہے

تنہائی ماں جائی ہماری اس پر لاکھ سلام

ویرانی کا بوجھ اٹھا کر شانہ بانٹتی ہے

ہم کو وقت اکٹھا کرتے عمریں لگتی ہیں

وہ لمحوں میں صدیوں کو روزانہ بانٹتی ہے

کچھ پیڑوں پر کم عمری میں بُور آ جاتا ہے

کچھ لوگوں میں جلدی قسمت دانہ بانٹتی ہے

باقی روز دعاؤں کی دہلیز پہ کٹتے ہیں

وہ رزقِ تکلیف مجھے ماہانہ بانٹتی ہے

ایک سخی طغیانی مجھ ساحل کی مٹی کو

دریا کی زرخیزی کا شکرانہ بانٹتی ہے

گردش اپنی جاری رہنے کی تمثالوں سے

رکے ہووں کو چلنے کا پروانہ بانٹتی ہے

پھولوں کو خوشبو کا لنگر روز نہیں ملتا

انہیں بھی موسم کی دیوی سالانہ بانٹتی ہے

میں آنکھوں سے منظر کا رس پیتا رہتا ہوں

وہ کھڑکی سے رنگوں کا مے خانہ بانٹتی ہے


منیر جعفری

No comments:

Post a Comment