تیرا غم باعثِ شفا نکلا
درد ہی درد کی دوا نکلا
دہر میں ہر سُو مارا مارا پھِرا
پھر بھی کوئی نہ راستہ نکلا
رُوشناسِ خوشی بھی تُو نے کیا
تجھ سے ہی غم کا سلسلہ نکلا
ہر تفکر سے ہو گیا آزاد
جو تِری انجمن میں آ نکلا
وہ کہ پتھر مزاج تھا مشہور
جب ٹٹولا تو آئینہ نکلا
اس نے ہر طور دلبری کی مِری
پھر بھی نہ وسوسہ نکلا
عشق سے رنج ہی ملا شاہیں
اس خرابے سے اور کیا نکلا
شاہین بیگ
No comments:
Post a Comment