گھڑا کچا ہے، میں کچا نہیں ہوں
تبھی تو آج تک ڈُوبا نہیں ہوں
گِرا ہوں تو دراڑیں پڑ گئی ہیں
مگر میں ٹُوٹ کے بکھرا نہیں ہوں
کئی دن سے شکم خالی ہے لیکن
نوالے کے لیے جھپٹا نہیں ہوں
کبھی شکوہ نہیں آیا لبوں پر
کبھی تقدیر سے اُلجھا نہیں ہوں
تبھی ساحل پہ آبادی ہے اتنی
سمندر ہوں، کبھی بِپھرا نہیں ہوں
حسیب جمال
No comments:
Post a Comment