خون دل پینے کا قصہ اور غم کھانے کا نام
عشق ہے اے دوست مر مر کے جیے جانے کا نام
یاد آ جاتے ہیں ان کو سوختہ سامان غم
جب کوئی لیتا ہے اس محفل میں پروانے کا نام
ظرف عالی چاہیے صہبا پرستی کے لیے
کر دیا بد نام کم ظرفوں نے میخانے کا نام
گردش دوراں کے ماتھے کی مٹاتا ہوں شکن
سامنے میرے نہ لو زلفوں کے بل کھانے کا نام
لطف پر مائل ہے شاید پھر وہ چشم مے فروش
بار بار آتا ہے لب پر آج پیمانے کا نام
انجمن میں مہ جمالوں کی بھلا کیوں جائیے
جلوہ گاہ ناز ہے دل کے پری خانے کا نام
عشق بھی ہے سرمدی تیرا اے حسن لا زوال
کس طرح مٹ جائے گا پھر تیرے دیوانے کا نام
گھوم جاتی ہے نظر میں اک بہشت کیف و رنگ
جھوم جاتا ہے مرا دل سن کے میخانے کا نام
شکوۂ بے داد بھی کتنا ستم ایجاد ہے
مسکرا دیتے ہیں وہ سن کر ستم ڈھانے کا نام
صاف ظاہر ہو گیا ناصر نگاہ شوق سے
اعتراف دلبری ہے ان کے شرمانے کا نام
ناصر انصاری
No comments:
Post a Comment