کبھی تو سوچنا تم ان اداس آنکھوں کا
یہ رتجگوں میں گھری محوِ یاس آنکھوں کا
میں گھِر گئی تھی کہیں وحشتوں کے جنگل میں
تھا اک ہجوم مِرے آس پاس آنکھوں کا
برہنگی تِرے اندر کہیں پنپتی ہے
لباس ڈھونڈ کوئی بے لباس آنکھوں کا
تمہارے ہجر کا موسم ہی راس آیا مجھے
یہی تھا ایک طبیعت شناس آنکھوں کا
اسی کی نذر سبھی رَت جگے سبھی نیندیں
اور اس کی آنکھوں کے نام اقتباس آنکھوں کا
پڑی رہے تِری تصویر سامنے یوں ہی
یہ زر کھلا رہے آنکھوں کے پاس آنکھوں کا
خیال تھا کہ وہ ابر اس طرف سے گزرے گا
سو یہ بھی جاناں تھا وہم و قیاس آنکھوں کا
جاناں ملک
No comments:
Post a Comment