نہ پوچھ اے مِرے غم خوار کیا تمنا تھی
دلِ حزیں میں بھی آباد ایک دنیا تھی
ہر اک نظر تھی ہمارے ہی چاک داماں پر
ہر ایک ساعت غم جیسے اک تماشا تھی
ہمیں بھی اب در و دیوار گھر کے یاد آئے
جو گھر میں تھے تو ہمیں آرزوئے صحرا تھی
کوئی بچاتا ہمیں پھر بھی ڈوب ہی جاتے
ہمارے واسطے زنجیر موجِ دریا تھی
بغیر سمت کے چلنا بھی کام آ ہی گیا
فصیلِ شہر کے باہر بھی ایک دنیا تھی
طلسمِ ہوشربا تھے وہ منظرِ ہستی
فضائے دیدہ و دل جیسے خواب آسا تھی
کوئی رفیقِ سفر تھا، نہ راہبر کوئی
جنوں کی راہ میں گلنار جادہ پیما تھی
گلنار آفرین
No comments:
Post a Comment