Wednesday 30 June 2021

زمین بین کرے آسمان رونے لگے

 زمین بین کرے، آسمان رونے لگے

ہمارے واسطے سارا جہان رونے لگے

ہمارے لہجے نے ہر سمت قتلِ عام کِیا

ہماری باتوں پہ سب بے زبان رونے لگے

وہ رخصتی کے سمے چُپ نہ رہ سکی کہ کہیں

اُسے رُلاتے ہوئے خاندان رونے لگے

ہرا بھرا سا کوئی زخم پھر عطا کر دو

کہ پچھلے زخموں کے مٹتے نشان رونے لگے

عجب سماں رہا کل گاؤں میں دمِ ہجرت

مکین چُپ رہے، لیکن مکان رونے لگے


رضوان عالم

No comments:

Post a Comment