Tuesday 29 June 2021

ہمیں شہروں سے ڈر لگتا ہے ہم دیہاتی لوگ ہیں

 ہم دیہاتی لوگ ہیں


ہم دیہاتی لوگ ہیں

کھیت میں لگے اس گنے کی طرح

جسے تم اپنے سخت ہاتھوں سے توڑ کر

اپنے دانتوں سے چھیل بھی دو

مگر وہ تب بھی تمہارا منہ مٹھاس سے بھر دے گا

ہم دیہاتی لوگ ہیں

مٹی کی ہانڈی میں پکتے

سرسوں کے ساگ کی طرح

جو ایک چولہے تک محدود نہیں ہوتا

مٹی کے پیالوں میں اس کا ذائقہ گھر گھر جاتا ہے

ہم دیہاتی لوگ ہیں

اچار کی ایک پھانک روٹی پر رکھ کر کھانے والے

چارپائی کے پائے پر پیاز توڑ کر کھاتے ہیں

اور لسی کے ایک گلاس پر میٹھی نیند سو جاتے ہیں

شُکر اور قناعت ہمارا ورثہ ہیں

مگر جب کوئی مہمان ہماری ڈیوڑھی پار کرے تو

ہم اپنے دسترخوان پر من و سلویٰ بچھا دیتے ہیں

ہمارا عقیدہ ہے کہ اس دسترخوان پر

ہمارا رب ہمارے ساتھ ہوتا ہے

ہم دیہاتی لوگ ہیں

مٹی کے چولہے پر گیلی لکڑیوں کے دھویں میں

پکی گُڑ کی چائے

پِرچوں میں ٹھنڈی کر کے

شُڑ شُڑ کر کے پینے والے معصوم لوگ

زمین پر آلتی پالتی مار کر

ہاتھ سے کھانے والے سادہ لوگ

خالص اور کھرے

ہم دیہاتی لوگ ہیں

کچے گھروں کے باسی

نرم گارے سے لِپے ہوئے ہمارے گھر

کہ جس گارے سے انسان کی تخلیق ہوئی

اسی لیے تو ہمارے دل نرم ہیں مٹی کی طرح

اور ہماری قبریں بھی کچی ہوتی ہیں

ہم مٹی سے مٹی میں مل جانے والے لوگ

کبھی اپنی اوقات نہیں بھُولتے

دنیا ہمیں دھوکہ میں نہیں ڈال سکتی

ہم دیہاتی لوگ ہیں

ہم اپنے بزرگوں کی روایتیں

سر پر پگڑی کی طرح باندھے رکھتے ہیں

حتٰی کہ سوتے وقت ان پگڑیوں پر

سر رکھ کر سو جاتے ہیں

ہم ہاتھوں پر گھڑیاں نہیں، اچھا وقت باندھ کر

ہر ایک سے خوشدلی سے ملتے ہیں

ہم چہرے پر ہر صبح مسکراہٹ تازہ کرتے ہیں

دوست دشمن دونوں کے لیے

ہم دیہاتی لوگ ہیں

ہمیں پکے مکانوں میں رہنے والے پتھر دل

لوگوں سے خوف آتا ہے

جب ہم پکی سڑک پر سفر کر کے

شہر کے کسی موڑ پر اُترتے ہیں

تو ہماری جیب کٹ جاتی ہے

اور ہمارے پاس واپسی کا کرایہ نہیں ہوتا

ہمیں شہروں سے ڈر لگتا ہے

ہم دیہاتی لوگ ہیں


ناہید اختر بلوچ

No comments:

Post a Comment