ہم دیہاتی لوگ ہیں
ہم دیہاتی لوگ ہیں
کھیت میں لگے اس گنے کی طرح
جسے تم اپنے سخت ہاتھوں سے توڑ کر
اپنے دانتوں سے چھیل بھی دو
مگر وہ تب بھی تمہارا منہ مٹھاس سے بھر دے گا
ہم دیہاتی لوگ ہیں
مٹی کی ہانڈی میں پکتے
سرسوں کے ساگ کی طرح
جو ایک چولہے تک محدود نہیں ہوتا
مٹی کے پیالوں میں اس کا ذائقہ گھر گھر جاتا ہے
ہم دیہاتی لوگ ہیں
اچار کی ایک پھانک روٹی پر رکھ کر کھانے والے
چارپائی کے پائے پر پیاز توڑ کر کھاتے ہیں
اور لسی کے ایک گلاس پر میٹھی نیند سو جاتے ہیں
شُکر اور قناعت ہمارا ورثہ ہیں
مگر جب کوئی مہمان ہماری ڈیوڑھی پار کرے تو
ہم اپنے دسترخوان پر من و سلویٰ بچھا دیتے ہیں
ہمارا عقیدہ ہے کہ اس دسترخوان پر
ہمارا رب ہمارے ساتھ ہوتا ہے
ہم دیہاتی لوگ ہیں
مٹی کے چولہے پر گیلی لکڑیوں کے دھویں میں
پکی گُڑ کی چائے
پِرچوں میں ٹھنڈی کر کے
شُڑ شُڑ کر کے پینے والے معصوم لوگ
زمین پر آلتی پالتی مار کر
ہاتھ سے کھانے والے سادہ لوگ
خالص اور کھرے
ہم دیہاتی لوگ ہیں
کچے گھروں کے باسی
نرم گارے سے لِپے ہوئے ہمارے گھر
کہ جس گارے سے انسان کی تخلیق ہوئی
اسی لیے تو ہمارے دل نرم ہیں مٹی کی طرح
اور ہماری قبریں بھی کچی ہوتی ہیں
ہم مٹی سے مٹی میں مل جانے والے لوگ
کبھی اپنی اوقات نہیں بھُولتے
دنیا ہمیں دھوکہ میں نہیں ڈال سکتی
ہم دیہاتی لوگ ہیں
ہم اپنے بزرگوں کی روایتیں
سر پر پگڑی کی طرح باندھے رکھتے ہیں
حتٰی کہ سوتے وقت ان پگڑیوں پر
سر رکھ کر سو جاتے ہیں
ہم ہاتھوں پر گھڑیاں نہیں، اچھا وقت باندھ کر
ہر ایک سے خوشدلی سے ملتے ہیں
ہم چہرے پر ہر صبح مسکراہٹ تازہ کرتے ہیں
دوست دشمن دونوں کے لیے
ہم دیہاتی لوگ ہیں
ہمیں پکے مکانوں میں رہنے والے پتھر دل
لوگوں سے خوف آتا ہے
جب ہم پکی سڑک پر سفر کر کے
شہر کے کسی موڑ پر اُترتے ہیں
تو ہماری جیب کٹ جاتی ہے
اور ہمارے پاس واپسی کا کرایہ نہیں ہوتا
ہمیں شہروں سے ڈر لگتا ہے
ہم دیہاتی لوگ ہیں
ناہید اختر بلوچ
No comments:
Post a Comment