Tuesday, 29 June 2021

کماں اٹھاؤ کہ ہیں سامنے نشانے بہت

 کماں اٹھاؤ کہ ہیں سامنے نشانے بہت

ابھی تو خالی پڑے ہیں لہو کے خانے بہت

وہ دھوپ تھی کہ ہوئی جا رہی تھی جسم کے پار

اگرچہ ہم نے گھنے سائے سر پہ تانے بہت

ابھی کچھ اور کا احساس پھر بھی زندہ ہے

نواحِ جسم کے اسرار ہم نے جانے بہت

زیادہ کچھ بھی نہیں ایک مُشتِ خاک سے میں

ذرا سی چیز کو پھیلا دیا ہوا نے بہت

لگا ہوا ہوں ادھر وقت کو سمیٹنے میں

پھسل رہے ہیں ادھر ہاتھ سے زمانے بہت

سفر قیام سے بہتر نہیں رہا اب کے

کہ جا بجا تھے مِری راہ میں ٹھکانے بہت

بڑی عجیب تھی پچھلی خموش رات حسن

مجھے رُلایا کسی دور کی صدا نے بہت


حسن عزیز

No comments:

Post a Comment