قسم خدا کی تجھے بس خدا نہیں سمجھا
وگرنہ اس کے سوا اور کیا نہیں سمجھا؟
عجب ہے تجھ سے بچھڑ کے نکھر گیا ہوں میں
خزاں میں پھول یہ کیسے کِھلا؟ نہیں سمجھا
اسی لیے تو مجھے مشکلوں نے گھیر لیا
جہاں پہ تھا میں وہاں کی ہوا نہیں سمجھا
تمام عمر رہے گا یہ رنج ساتھ مِرے
مِرا چراغ، مِرا مدعا نہیں سمجھا
وہ جس کے بعد ہر اک غم خوشی میں ڈھل جائے
میں زندگی کا وہی مرحلہ نہیں سمجھا
تُو پوچھتا ہے کہ خاموش گفتگو کیا ہے؟
تُو دل سے دل کا یہی رابطہ نہیں سمجھا
جمال اس نے اگر کہہ دیا تو کیا لڑنا
وہ کون ہے جو ہمیں سر پھرا نہیں سمجھا
حسیب جمال
No comments:
Post a Comment