ونٹیلیٹر
دل کی بھوک نہ مٹنے کی وجہ سے
زندگی مٹانے کے لیے
چاند پر جانے کے خواب دیکھنے والے نوجوان نے مرکری کا ذائقہ چکھا
مرغی کو کٹتا نہیں دیکھ سکتا تھا
آج خود کو اندر سے کٹتا محسوس کر رہا ہوں
سامنے والے کی آنکھیں کھلنے سے پہلے
میری آنکھیں بند ہونے لگیں
ہائے ہائے کی آواز
رونا، پیٹنا، جھنجوڑنا
سائرن کی آواز آئی
سماعت چلی گئی
آنکھ کھلی تو کسی بڑے ہال کی چھت چل رہی تھی
اور دیواریں گزر رہی تھیں
روتے چیختے تین لوگوں کا ہجوم کچھ کہہ رہا تھا
ان چیخیوں سے سماعت لوٹ آئی تھی
سب کچھ رک چکا تھا
جلدی آؤ، ادھر آؤ، یہ کرو، وہ کرو، ایسے کرو
یہ لو پرچی یہ سب لے آؤ
اسے ادھر کر دو اور اسے اوپر کرو
آپ بیٹھ جائیں
آپ باہر چلی جائیں
آپ کون ہیں
اس کا نام کیا ہے
کیا ہوا اسے
کیا کیا اس نے
اوپر لٹکتا تھیلا آنکھوں پر بار نہیں ہے
میری ٹانگیں میرے ساتھ نہیں ہیں
حالانکہ ہیں
ہر چیز دھندلی ہو رہی ہے
یہ لو اسے دیکھ کر کھولو
کھولنے سے پہلے آنکھیں بند ہو گئیں
بیپ، بیپ، بیپ، اسے چلا دو
یہ چیخیں بند کیوں نہیں ہو رہیں
اسے اٹھاؤ وہ نیچے گر پڑی ہے
اسے کرسی پر بٹھاؤ
اچھا اسے باہر لے جاؤ
آدھا جسم نہیں رہا
حالانکہ ہے
انگلیوں پر کاٹتی چیونٹیاں
سینے پر رینگتے سانپ
ناک میں گھستا سانپ
ناک سے پیٹ تک چلا گیا لیکن کاٹ نہیں رہا
جسم پورا نہیں رہا
حالانکہ ہے
وہ اٹھنا چاہتا ہے
اسے دھکا دو
کچھ بولنا چاہتا ہے
منہ میں پائپ گھسیڑ دو
سانس تیز ہو رہا ہے
منہ میں پائپ ڈالو بھی اب
سانپ نکال لیا گیا
میٹر دیکھو اسے آن کرو
پلیز آپ لوگ باہر جائیں
وہ دیکھ نہیں پا رہا
آکسیجن لگا دو
آپ لوگ باہر کیوں نہیں جا رہے
چیخیں بند ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہیں
کچھ سنا؟
کان سے خون نکل رہا ہے
روئی دو
اسے اٹھنے مت دینا
اسے آن کرو اور مجھے دو
آپ لوگ باہر جائیں پلیز
سینے پر چند جھٹکوں سے
دیکھو وہ آنکھیں کھول رہا ہے
ایک چیخ سسکیوں میں بدل گئی
آنکھیں نہیں رہیں
حالانکہ ہیں
کان نہیں رہے
حالانکہ ہیں
میں ونٹیلیٹر پر پڑے ہوئے خود کو دیکھ رہا تھا
چیخیں اتنی بڑھ گئیں کہ وہاں رک نہیں سکا
اور کانوں پر ہاتھ دیئے وہاں سے نکل گیا
اور بند آنکھوں سے نکلا آنسو لال روئی تک پہنچ گیا
شہباز مہتر
No comments:
Post a Comment