اتنا جھگڑالو فسادی نہیں ہو سکتا ہے
ایسا عادی، مِرا عادی نہیں ہوسکتا ہے
سینکڑوں بار مِری شکل کو تکنے والے
عشق کیا غیر ارادی نہیں ہو سکتا ہے؟
بھینٹ رسموں کی چڑھے گا یہ تِرا میرا ملاپ
چاہے جس نے بھی دعا دی، نہیں ہو سکتا ہے
تجھ سے منسوب ہوا ہے تو کسی اور کا اب
کر دو بستی میں منادی، نہیں ہو سکتا ہے
ان فضاؤں میں کسی سانس کی خوشبو ہے عدیل
چھوڑ جاؤں میں یہ وادی، نہیں ہو سکتا ہے
عدیل عبداللہ
No comments:
Post a Comment