Tuesday 29 June 2021

جانتے بھی ہو درد کس کو کہتے ہیں

 درد لا دوا ٹھہرا


درد درد کرتے ہو

جانتے بھی ہو درد کس کو کہتے ہیں؟

آنسوؤں کے درمیاں ہچکیوں کا رک جانا

سوچ کی زمیں پر ان گِنت حوالوں سے

اپنے اپنے چہروں کا بے بسی میں یاد آنا

ہاتھوں کی ہتھیلی میں سوچنا گرفتوں کو

اپنے چار سُو تکنا اس قدر اذیت میں

جیسے کوئی ڈھونڈے کچھ شفیق چہروں کو

حوصلے سے مُسکاتی بولتی نگاہوں کو

اپنی ماں کی بانہوں کی پرسکوں پناہوں کو

درد درد کرتے ہو

جانتے بھی ہو؟

رگوں میں جمتے خون کی اذیت کو

کتنے سارے لمحوں میں ذندگی کے کرنے کو

جانتے بھی ہو کیسے ہارتے ہیں لوگ

کتنے سارے خوابوں کو کیسے مارتے ہیں لوگ؟

درد کے لمحے کوششوں کو کرنے میں

موت سے پہلے اس طرح سے مرنے میں

کتنے لمحے ہوتے ہیں جو زندگی نہیں ہوتے

درد کی حویلی کی فصیل اونچی ہوتی ہے

اس سے باہر آنے کو دروازہ نہیں ہوتا

کیسے جی رہا ہے وہ اس قدر اذیت میں

دروازے کے باہر سے اندازہ نہیں ہوتا

درد سہنے والوں کی آنکھیں مسکرائیں تو

پھر یہ تم سمجھ لینا

درد لا دوا ٹھہرا

درد درد کرتے ہو؟

جانتے بھی ہو درد کس کو کہتے ہیں؟


راحیلہ بیگ چغتائی

No comments:

Post a Comment