Wednesday, 30 June 2021

پہلے تو مسکرا کے کہا اور عشق کر

 پہلے تو مسکرا کے کہا، اور عشق کر

پھر آنکھ کو لڑا کے کہا، اور عشق کر

میں ہٹ گیا تھا چُوم کر اُس نازنین کو

اُس نے دِیا بجھا کے کہا، اور عشق کر

پہلے مجھے ندی کے کنارے پہ لے گیا

اور پھر مجھے بہا کے کہا، اور عشق کر

میں نے لکھا تھا ہاتھ پہ تیرا حسین نام

تُو نے مگر مٹا کے کہا، اور عشق کر

میں کہہ رہا تھا عاشقی پر شعر خواب میں

پھر میر نے جگا کے کہا، اور عشق کر

تھک ہار کر گِرا تھا زمیں پر وجود جب

سرکار نے اُڑا کے کہا، اور عشق کر


حمزہ سواتی

No comments:

Post a Comment