Wednesday 30 June 2021

اب کے میدان رہا لشکر اغیار کے ہاتھ

 اب کے میدان رہا لشکرِ اغیار کے ہاتھ

گروی اس پار پڑے تھے مِرے سالار کے ہاتھ

ذہن اس خوف سے ہونے لگے بنجر کہ یہاں

اچھی تخلیق پر کٹ جاتے ہیں معمار کے ہاتھ

اب سرِ قریۂ بے دست پڑا ہے کشکول

روز کٹ جاتے تھے اس شہر میں دو چار کے ہاتھ

لوٹ کچھ ایسی مچی شہر کا در کھلتے ہی

ہر طرف سے نکل آئے در و دیوار کے ہاتھ

ہم سر شاخ سناں قریہ بہ قریہ مہکے

ہم نے اس جنگ میں سر جیت لیے ہار کے ہاتھ

سایہ سوزی میں تو ہم لوگ تھے سورج کے حلیف

اب ہدف ٹھہرے کہ جب جل گئے اشجار کے ہاتھ


جواز جعفری

No comments:

Post a Comment