کسی کو زخمِ تمنا دِکھا نہیں سکتا
میں دشت میں ہوں مگر خاک اُڑا نہیں سکتا
تمہیں بھی یار! محبت سے کام لینا ہے
میں بات بات پہ تم کو منا نہیں سکتا
کہ جس میں رنج ہیں آلام اور مصائب ہیں
میں بار بار وہ قصہ سنا نہیں سکتا
اسے پسند کوئی اور آ گیا ہے تو پھر
میں اس پہ اپنی محبت جتا نہیں سکتا
دلوں میں داغ ہیں اور وہ بھی بدگمانی کے
میں لاکھ بار مٹاؤں مٹا نہیں سکتا
ترا اصول محبت سے ماورا ہے دوست
میں تیرے ہاتھ پہ ایمان لا نہیں سکتا
میں تیری شکل بنا سکتا ہوں مگر زاہد
کسی طرح تِری آنکھیں بنا نہیں سکتا
زاہد خان
No comments:
Post a Comment