میں یہاں نہیں ہوں
میں نہیں جانتا
میں کون ہوں
صرف اندازے سے کہہ سکتا ہوں
ایک گالی ہوں
جسے لوگ دوسروں کے چہروں پر مل دیتے ہیں
ایک ناٹکیا ہوں
اور
لاشوں کو نا سمجھ آنے والے گیت سناتا ہوں
جو عورتیں
یادوں کے سویٹر بنتی ہیں
ان کی سُوئی میں دھاگے ڈالتا ہوں
میں گاؤں سے باہر اُگنے والی اُداسی کاٹتا ہوں
اور لوگوں کے ادھورے خواب دفنانے کے لیے گڑھے کھودتا ہوں
بارش میں بھیگا ہوا ایک لفظ ہوں جسے اپنی معنی کی تلاش ہے
خود سے بچھڑے لوگوں کا نمائندہ ہوں
اور ایک پرانی کشتی پر سفر کرتے ہوئے
خود سے بچھڑتا جا رہا ہوں
مگر میں نہیں جانتا
میں کون ہوں
اویس سجاد
No comments:
Post a Comment