گلشن کو کس بہار کا دیدار ہو گیا
"کیا آشکار حُسنِ رُخِ یار ہو گیا"
شوخی ادا و ناز سبھی کچھ رہے مگر
اس کا حجاب مانعِ اقرار ہو گیا
گرنے لگے ہیں آنکھ سے یادوں کے آبشار
اس دل پہ اس کی یاد کا پھر وار ہو گیا
پھر ہجر لکھ دیا مِرے خط کے جواب میں
پھر وصل کے سوال پہ انکار ہو گیا
یوں شدتِ طلب رہی دیدار کی تِرے
میرا وجود سایۂ دیوار ہو گیا
افضال اکمل قاسمی
No comments:
Post a Comment