لاک ڈاون میں جنم دن
تمہارے لیے پھول چنتے ہوئے
نظم لکھتے ہوئے یاد آیا
کہ تم دور ہو میری آنکھوں سے
اور میرے ہونٹوں سے اور میری بانہوں سے
لیکن مِرے روز و شب کی بساطِ سفید و سیہ پر
سبھی گھر تمہاری ہنسی اور ہونے سے آباد ہیں
قید خانے میں ہر دن تمہارے لبوں سے نکلتا ہے اور
رات پلکوں سے ہوتی ہوئی
گھور آنکھوں کے پاتال میں جا کے گرتی ہے
سچ کہہ رہا ہوں
بہت دور ہو
اور اس بار رستے لپیٹے گئے ہیں
سنو فاصلہ اس دفعہ میل کے پتھروں سے نہیں کٹ رہا
کیونکہ وہ کاٹ کر تم تک آنے سے
پچھلی دفعہ مجھ کو کوئی نہیں روک پایا تھا
سو فاصلہ تو یقیناً بہت بڑھ گیا ہے
مگر، یاد رکھنا
یہ سب ختم ہوتے ہی میں تم سے ملنے
تمہیں چومنے
تم کو بانہوں میں بھرنے چلا آؤں گا
تم فقط یہ کرو
خود کو زندہ رکھو
اور تب تک مِری نظم تحفہ سمجھ لو
ذیشان حیدر نقوی
No comments:
Post a Comment