ہمارے دور کو برباد کر گئے افکار
یہ کون آئے کہ گھر گھر سے در گئے افکار
تمام لوگ بہت خوش ہیں اپنی مستی میں ہیں
میں کس سے بولوں مِرے لوگ مر گئے افکار
وہ مجھ پہ غور کرے گا تو مجھ سے پوچھے گا
کہ آدھے آدھے ہو، آدھے کدھر گئے افکار
٭اساڈا ڈکھ، چھَڑا ساڈا ہے، کوئی کِنجے سمجھے
سو جگ ہنسائی ہوئی، ہم جدھر گئے افکار
ہماری آنکھ کھُلی، تم نہیں تھے، خامشی تھی
لگا کہ بستی سے دریا گُزر گئے افکار
تمہارے بعد ہمیں وسوسوں نے گھیر لیا
کسی نے ہنس کے بُلایا تو ڈر گئے افکار
خدا بچائے کہ شہرت فریبی کتیا ہے
یہ صرف بھونکی، مِرے بال و پر گئے افکار
افکار علوی
سرائیکی مصرع: ہمارا دکھ صرف ہمارا ہے کوئی کیسے سمجھے
No comments:
Post a Comment