Wednesday, 30 June 2021

کوئی اجداد کے خزانے تھے

کوئی اجداد کے خزانے تھے

درد کچھ اس قدر پرانے تھے

نہ نگاہیں چراؤ کھنڈر سے

یہ تو "آباد آشیانے" تھے

صرف اظہار ہی نہیں کافی

آپ کو ناز بھی اٹھانے تھے

وجہ انکار کی مِرے تو بس

یوں سمجھ لیجیے بہانے تھے

بے سہارا ہیں اور بے گھر بھی

رشتے ناطوں میں جو سیانے تھے

بعد مُدت کے خوب سوئی میں

میرا سر اور ان کے شانے تھے

ان نگاہوں کے وار سہہ نہ سکے

تیغ کے وار جو دکھانے تھے


کنچن ڈوبھال

No comments:

Post a Comment