کوئی اجداد کے خزانے تھے
درد کچھ اس قدر پرانے تھے
نہ نگاہیں چراؤ کھنڈر سے
یہ تو "آباد آشیانے" تھے
صرف اظہار ہی نہیں کافی
آپ کو ناز بھی اٹھانے تھے
وجہ انکار کی مِرے تو بس
یوں سمجھ لیجیے بہانے تھے
بے سہارا ہیں اور بے گھر بھی
رشتے ناطوں میں جو سیانے تھے
بعد مُدت کے خوب سوئی میں
میرا سر اور ان کے شانے تھے
ان نگاہوں کے وار سہہ نہ سکے
تیغ کے وار جو دکھانے تھے
کنچن ڈوبھال
No comments:
Post a Comment