شب غم میں چھائی گھٹا کالی کالی
جھُکی ہے بلا پر بلا کالی کالی
ڈٹے مل کے رِندِ سیہ مست جس دم
جھُکی مے کدے پر گھٹا کالی کالی
شبِ ماہ میں وہ پھرے بال کھولے
ہوئی چاندنی جا بجا کالی کالی
کھُلی سب پر آخر تِری گرم دستی
ہوئی کھولتے ہی حنا کا کالی کالی
لنڈھا دے مے سرخ تو اب تو ساقی
گھٹا اُٹھی ہے دیکھ کیا کالی کالی
ہوئے ہیں سیہ بخت برباد لاکھوں
اُٹھیں آندھیاں بارہا کالی کالی
بخاراتِ دل آہ پر چھا گئے ہیں
گھٹا ہے بروئے ہوا کالی کالی
سیہ نامۂ قدر محشر میں نکلا
اُٹھی دھوپ میں اک گھٹا کالی کالی
قدر بلگرامی
No comments:
Post a Comment