Wednesday, 30 June 2021

گہری نیلی شام کا منظر لکھنا ہے

 گہری نیلی شام کا منظر لکھنا ہے

تیری ہی زلفوں کا دفتر لکھنا ہے

کئی دنوں سے بات نہیں کی اپنوں سے

آج ضروری خط اپنے گھر لکھنا ہے

شدت پر ہے ہرے بھرے پتوں کی پیاس

صحرا صحرا خون سمندر لکھنا ہے

پتھر پر ہم نام کسی کا لکھیں گے

آئینے پر آذر آذر لکھنا ہے

چہرہ روشن کھلے ہوئے صحرا کی دھوپ

گہری آنکھیں گہرا ساگر لکھنا ہے

اس سے آگے کچھ لکھنے سے قاصر ہوں

اس کے آگے تجھ کو بڑھ کر لکھنا ہے


فاروق نازکی

No comments:

Post a Comment