وجود اپنا ہی کاندھوں پر جنازہ لگنے لگتا ہے
کسی اپنی ہی غلطی کا خمیازہ لگنے لگتا ہے
بڑی اپنائیت سے جب نیا چَرکا لگے دل پر
پرانے سے پرانا زخم تازہ لگنے لگتا ہے
غمِ ہجراں بیاں کرنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی
مجھے بکھرا ہوا میرا شیرازہ لگنے لگتا ہے
خرابی کا سبب اک یہ بھی ٹھہرا بزمِ دنیا میں
یہاں اغیار کی خاطر بھی غازہ لگنے لگتا ہے
اگر سالن کا ستیاناس محبوبہ کوئی کر دے
محبت میں وہ بَڑھیا دوپیازہ لگنے لگتا ہے
زمانہ جانتا ہے کہ حقیقت کیا ہے شاکر کی
مگر پھر بھی نیا کوئی اندازہ لگنے لگتا ہے
بی اے شاکر
No comments:
Post a Comment