ہمیں وہ خواب لا دو
جن کو دیکھنے کے لیے ہمیں کوئی رات نہیں دی گئی
اور وہ رات
جس کو طاری ہونے سے بچنے کے لیے
ہمارے اوپر جلتے سورج پہرے دار کئے گئے
ہماری نیند کہاں ہے؟
جس کی غیر حاضری سے
ہمارے بستر پر ابھی تک کوئی شکن تحریر نہیں ہوئی
ہمیں اس درخت سے ملواؤ
جو کلہاڑے کا دستہ بنانے کے لیے
اپنی سب سے توانا شاخ ہدیہ دیتا ہے
ہمیں وہ گیت سناؤ
جو تمام شاعروں نے مل کر لکھنا چاہا
لیکن سب کو نسیان ہو گیا
مہینے کی بتیسویں تاریخ ایجاد کرو
جس میں صرف رقص کرنا اہم ہو
ہمیں وہ تاریخ یاد کرواؤ
جس میں ہم مار دئیے جائیں گے
ہم اس تاریخ سے ایک دن پہلے
سارے مؤذن مار دیں گے
صبح نہیں ہو گی
اور ہم زندہ رہیں گے
ہمیں اپنی موت مرضی سے
منتخب کرنے کی سہولت درکار ہے
کاشف شاہ
No comments:
Post a Comment