کہنے کو ایک شام سہانی ہے زندگی
لیکن ہر ایک غم کی جوانی ہے زندگی
یہ کیا تھی اور تم نے اسے کیا بنا دیا
آ جاؤ اب کہ تم کو دکھانی ہے زندگی
کہتے ہیں لوگ جس کو وفا جانتے ہیں ہم
اس لفظ سے ہی رات کی رانی ہے زندگی
شرمندہ ہو کے رنج و الم خود ہی لوٹ جائیں
ہم کو اب اس مقام پہ لانی ہے زندگی
اک عمر سے میں تلخیاں پی پی کے تھک گئی
اب راستے سے اپنے ہٹانی ہے زندگی
اڑتی ہے آسمانی فضاؤں میں آج جو
کل موت کے حصار میں آنی ہے زندگی
زریاب اس کو خاک میں ملنا ہے ایک دن
یعنی کہ بے معنی کہانی ہے زندگی
ہاجرہ نور زریاب
No comments:
Post a Comment