Monday 28 June 2021

گھٹن اداسی کا آئینہ ہے

 گھٹن اداسی کا آئینہ ہے اور آئینے میں پڑی دراڑیں 

ہمارا چہرہ اُبھارنے کی سعی میں خود کو تھکا رہی ہیں

خزاں کی زد میں

طویل ہجرت کا بار کاندھے جھُکا چکا ہے

وہ گیسُو جن میں تمہاری نظمیں تھی

ان میں چاندی کے تار حسرت سے جلوہ گر ہیں

وہ ہونٹ جن پر نزاکتوں کے

طویل قصوں کو فُرصتوں میں

اُتارا جاتا تھا

سُوکھی مٹی کے بھُربھُرے سے وجود کی شکل لے چکے ہیں

وہ ہاتھ جن کی شگفتگی پر تمہاری جانب سے دنیا بھر کے 

سبھی گلابوں کی ساری قسموں کی بھینٹ چڑھتی تھی

بے اماں ہیں

وہ آنکھیں جن کو سبھی ستاروں پہ فوقیت تھی

کہیں پرانی حویلیوں کے اُجاڑ خانوں میں رکھے بُجھتے چراغ سی ہیں

اب ایسی صورت میں تیرا چہرہ نظر بھی آئے تو کیا کریں گے؟

ہمارے جیسے دوا کے قائل

دعا پہ کب اکتفا کریں گے؟


مقدس ملک

No comments:

Post a Comment