Wednesday 30 June 2021

کتنی تعبیروں کے منہ اترے پڑے ہیں

 کتنی تعبیروں کے منہ اترے پڑے ہیں

خواب اب تک ہاتھ پھیلائے کھڑے ہیں

راہ میں جو میل کے پتھر گڑے ہیں

رہنماؤں کی طرح ششدر کھڑے ہیں

کوئی اپنے آپ تک پہنچے تو کیسے

آگہی کے کوس بھی کتنے کڑے ہیں

زندگی ہم تجھ سے بھی لڑ کر جئیں گے

ہم جو خود اپنے ہی سائے سے لڑے ہیں

دوستو! سر پر بھی آ جاتا ہے سورج

دھوپ کم ہے اس لیے سائے بڑے ہیں

ہم کو بھی کچھ وقت دے اے جانِ محفل

ہم نے بھی دو ایک افسانے گھڑے ہیں


ذکا صدیقی

No comments:

Post a Comment