اس نے دیکھا ہے سرِ بزم ستم گر کی طرح
پھول پھینکا بھی مِری سمت تو پتھر کی طرح
اس کے لب کو مِرے لب رہ گئے چھُوتے چھُوتے
میں بھی ناکام چلا آیا سکندر کی طرح
رنگ سورج کا سرِ شام ہوا جاتا ہے زرد
اس کا بھی گھر نہ ہو ویران مِرے گھر کی طرح
درد اس عہد کی میراث ہے ڈرنا کیسا
درد کو اوڑھ لیا کرتے ہیں چادر کی طرح
لوگ ہر لمحہ بدلتے ہیں نظریے اپنے
ذہن انساں بھی طوائف کے ہے بستر کی طرح
کیسا اس عہد میں پیمان وفا لوگ اب تو
دوست ہر سال بدلتے ہیں کلینڈر کی طرح
لفظ آتے ہی مِرے لب پہ لرز جاتے ہیں
حالِ دل سنتے ہیں اب وہ کسی افسر کی طرح
انجم اس عہد میں ٹوٹے ہوئے دل کے رشتے
جوڑنے پر بھی ہیں اُدھڑے ہوئے کالر کی طرح
انجم عرفانی
No comments:
Post a Comment