تن کا لباس، جیب کے سِکے بدل گئے
سویا رہا میں اور زمانے بدل گئے
شکرِ خدا کہ کوئی تصادم نہیں ہوا
شکرِ خدا کہ ریل کے کانٹے بدل گئے
جس دن سے منتقل ہوا اصلی مکان میں
اس دن سے ہی تمام اثاثے بدل گئے
معلوم تھا کہ تم نے بدلنا ہے ایک دن
افسوس یہ کہ وقت سے پہلے بدل گئے
پہلے کبھی تو راہ سے بھٹکا نہیں جمال
اس بار لگ رہا ہے کہ رستے بدل گئے
حسیب جمال
No comments:
Post a Comment