اسے یاد کر
ان دنوں
اپنی آنکھوں سے اس طرح خیرات کر
کہ نمی سکہ سکہ گرے
اور خزانوں کا مالک یہ تعداد گن کر بہت زور سے
اپنے دربار میں ہنس پڑے
باجرے کی طرح
ہر دعا اپنے ہاتھوں کی منڈیر پر نہ سجا
یہ پرندوں کا دانہ نہیں
اے اناڑی رفوگر
تُو پہلے ہتھیلی کے چھیدوں کو بھر
اور پھر اپنا دل چھان کے پیش کر
درد دوپہر کو
شام کے قہر کو
گھر کی گھڑیوں سے گِرتے ہوئے وقت کی
مٹھیوں میں نہ بھر
ہاں مگر آسماں کی طرف
چور نظروں سے تکتی
اگر خالی جائے نمازوں کے ہاتھوں میں تسبیح ملے
تو کہیں موسلادھار چپ کی طرح بیٹھ کر
صبر کے تیر سینے پہ گِن
اور اُسے یاد کر
کہ جسے یاد کرنے، منانے کا مخصوص کوئی بہانہ زمانہ نہیں
ہمایوں منصور
No comments:
Post a Comment