اپنی خاطر بهی تو آتا نہیں جذبات میں میں
دیکھ لو، کتنا اکیلا ہوں اپنی ذات میں میں
ایک ہی رات کی مہلت مجهے دی ہے اس نے
کیا کوئی معجزہ کر پاؤں گا ایک رات میں میں
کس طرح خود کو سمیٹوں، میری جاں کے دُشمن
تُو بتا، کس طرح آیا تها تِرے ہاتھ میں میں
دیکھ لو، وقت دِکهاتا ہے مراحل کیا کیا
تُو کڑی دهوپ میں تنہا، بهری برسات میں میں
اس سے آگے بھی کوئی عشق کی منزل ہو گی
میری عادات میں تُو ہے، تیری عادات میں میں
تیرے انجام سے میں خوفزدہ ہوں فیصل
تجھ کو تنہا ہی نہ کر دے تِری ہر بات میں میں
مرزا فیصل
No comments:
Post a Comment