ایش ٹرے میں رکھے ہونٹ
ان خلاؤں سے تنہائی تک کا سفر
ایسا آسیب ہے
جو بدن کے تنے پر امر بیل جیسے لپیٹا گیا
ہر طرف لوگ ہیں
پر اکیلے اکیلے
بڑی بالکونی سے ٹیرس تلک
اور سمندر کی نیلاہٹوں سے ادھر
ساحلوں کے قریبی جزیروں تلک
تنگ گلیوں تلک
اک کلیشے کی بوسیدگی چھائی ہے
یہ فنی بانجھ پن زچگی کو ترستا رہے گا
میں گھٹنوں کے بل پر کھڑا ہو رہا ہوں
وہاں سامنے اک پلازے نے بچہ جنا ہے
تجارت کے پھُولے ہوئے پیٹ سے ساتواں مالا ہے
اور
مٹھائی فری بٹ رہی ہے
سنا ہے ستر والے مردوں کے ہاتھوں سے
ہتھنی کے بچے نمودار ہوتے ہی اُڑنے لگے ہیں
کبوتر نے سونے کے انڈے دیئے
اور اک فاختہ نے چوپایہ جنا ہے
یہ بالیدگی کا عمل ہے
ہمیں سوچنا ہے پلوٹو پہ اچھے ڈنر کا
گلیکسی سے اگلے جہانوں کی اچھی طرح سیر کر لیں
کبھی ساتویں آسماں پر ہی گرمی کی چھٹی گزاریں
کبھی دل کرے عالمِ غیب میں ایک کیمپس بنائیں
زمیں کو اٹھا کر سُرنگیں بنا دیں
جو پاتال تک ریل گاڑی سے جائیں
توازن کی حد پر
دماغوں کے تودے سے دیوارِ تازہ بنا دیں
کوئی وسوسہ اندروں تک نہ آئے
یہ تجرید کی ایک تمثیل ہے
ایسا اسمِ سخن جو کہ
مُردہ چراغوں کے سینے پہ پھونکیں تو جلنے لگیں
صوت کے ساز سے
بُت تڑخنے لگیں
حرف کی ساحرہ
اپنی رانی بنے اور نئے عہد کی
اک کہانی بنے
سِگرٹوں کا دُھواں بھاری پاؤں سے چلتی کا فوٹو بنا لے
تو شاعر کی اولاد کچرے کے ڈبے سے سوئی اٹھے
اور کھلنے لگے
راشد امام
No comments:
Post a Comment