Wednesday, 30 June 2021

ان خلاؤں سے تنہائی تک کا سفر ایسا آسیب ہے

 ایش ٹرے میں رکھے ہونٹ


ان خلاؤں سے تنہائی تک کا سفر

ایسا آسیب ہے

جو بدن کے تنے پر امر بیل جیسے لپیٹا گیا

ہر طرف لوگ ہیں

پر اکیلے اکیلے

بڑی بالکونی سے ٹیرس تلک

اور سمندر کی نیلاہٹوں سے ادھر

ساحلوں کے قریبی جزیروں تلک

تنگ گلیوں تلک

اک کلیشے کی بوسیدگی چھائی ہے

یہ فنی بانجھ پن زچگی کو ترستا رہے گا

میں گھٹنوں کے بل پر کھڑا ہو رہا ہوں

وہاں سامنے اک پلازے نے بچہ جنا ہے

تجارت کے پھُولے ہوئے پیٹ سے ساتواں مالا ہے

اور

مٹھائی فری بٹ رہی ہے

سنا ہے ستر والے مردوں کے ہاتھوں سے

 ہتھنی کے بچے نمودار ہوتے ہی اُڑنے لگے ہیں

کبوتر نے سونے کے انڈے دیئے

اور اک فاختہ نے چوپایہ جنا ہے

یہ بالیدگی کا عمل ہے

ہمیں سوچنا ہے پلوٹو پہ اچھے ڈنر کا

گلیکسی سے اگلے جہانوں کی اچھی طرح سیر کر لیں

کبھی ساتویں آسماں پر ہی گرمی کی چھٹی گزاریں

کبھی دل کرے عالمِ غیب میں ایک کیمپس بنائیں

زمیں کو اٹھا کر سُرنگیں بنا دیں

جو پاتال تک ریل گاڑی سے جائیں

توازن کی حد پر

دماغوں کے تودے سے دیوارِ تازہ بنا دیں

کوئی وسوسہ اندروں تک نہ آئے

یہ تجرید کی ایک تمثیل ہے

ایسا اسمِ سخن جو کہ 

مُردہ چراغوں کے سینے پہ پھونکیں تو جلنے لگیں

صوت کے ساز سے

بُت تڑخنے لگیں

حرف کی ساحرہ

اپنی رانی بنے اور نئے عہد کی

اک کہانی بنے

سِگرٹوں کا دُھواں بھاری پاؤں سے چلتی کا فوٹو بنا لے

 تو شاعر کی اولاد کچرے کے ڈبے سے سوئی اٹھے

اور کھلنے لگے


راشد امام

No comments:

Post a Comment