موت کا لمس
رات کے بارہ تیس ہوئے ہیں
میں بستر پر لیٹا سونے کی کوشش میں لمبی سانسیں لیتا ہوں
یکدم تیز ہوا نے دروازے پر کاری ضرب لگائی
ایسے جیسے زور سے دروازے کو دھکا مارتی ہو
کھڑکیاں بجنے لگ گئی ہیں
سامنے والے بیڈ پر بوڑھا آخری سانسیں لیتے لیتے ہار گیا
رفتہ رفتہ پورے وارڈ میں موت کی چیخیں گونج اٹھیں
اور اک اک کر کے سارے پیشنٹ جان کی بازی ہار گئے ہیں
ڈاکٹر نرسز خوف کے مارے وارڈ سے باہر دوڑ گئے
لاشوں پر گریے اور چیخیں جاری ہیں
میرے بیڈ کے پاس کھڑا تھا عزرائیل
جونہی اس نے میرے سر پر ہاتھ رکھا تو
چیخ گلے کو چیر کے باہر نکلی تھی
بند آنکھوں کو جب کھول کے دیکھا گھر میں اپنے بستر پر ہوں
رات کے ساڑھے بارہ ہیں اور
صحن میں بالکل خاموشی ہے
بالکل میرے خواب کے جیسی خاموشی
نجم الحسن نجمی
No comments:
Post a Comment