Tuesday, 29 June 2021

موت کا لمس رات کے بارہ تیس ہوئے ہی

 موت کا لمس


رات کے بارہ تیس ہوئے ہیں

میں بستر پر لیٹا سونے کی کوشش میں لمبی سانسیں لیتا ہوں

یکدم تیز ہوا نے دروازے پر کاری ضرب لگائی

ایسے جیسے زور سے دروازے کو دھکا مارتی ہو

کھڑکیاں بجنے لگ گئی ہیں

سامنے والے بیڈ پر بوڑھا آخری سانسیں لیتے لیتے ہار گیا

رفتہ رفتہ پورے وارڈ میں موت کی چیخیں گونج اٹھیں

اور اک اک کر کے سارے پیشنٹ جان کی بازی ہار گئے ہیں

ڈاکٹر نرسز خوف کے مارے وارڈ سے باہر دوڑ گئے

لاشوں پر گریے اور چیخیں جاری ہیں

میرے بیڈ کے پاس کھڑا تھا عزرائیل

جونہی اس نے میرے سر پر ہاتھ رکھا تو

چیخ گلے کو چیر کے باہر نکلی تھی

بند آنکھوں کو جب کھول کے دیکھا گھر میں اپنے بستر پر ہوں

رات کے ساڑھے بارہ ہیں اور

صحن میں بالکل خاموشی ہے

بالکل میرے خواب کے جیسی خاموشی


نجم الحسن نجمی

No comments:

Post a Comment