نفرت کی آگ جلنے لگی تیرے شہر میں
یہ بات آج کھلنے لگی تیرے شہر میں
جو آشنا تھے کل مِرے سب گم کہاں ہوئے
ہجرت کی چاہ پلنے لگی تیرے شہر میں
مرنے کا مارنے کا یہ کیا دور آ گیا
جینے کی آس ٹلنے لگی تیرے شہر میں
میرا یہاں سے ٹھور ٹھکانہ اُجڑ گیا
آندھی عجیب چلنے لگی تیرے شہر میں
ہر دل میں کون بھرنے لگا دشمنی یہاں
شفقت بھی ہاتھ ملنے لگی تیرے شہر میں
قدرت خفا ہوئی نہ کہیں لائے زلزلہ
کروٹ زمیں بدلنے لگی تیرے شہر میں
کالی گھٹا کی قید میں وہ کب تلک رہے
اب چاندنی مچلنے لگی تیرے شہر میں
پلوی مشرا
No comments:
Post a Comment