معیار وفا
پنجۂ ظلم سے انساں کو چھڑاتی ہے وفا
دل میں سوئے ہوئے جذبوں کو جگاتی ہے وفا
درس احساس کا عمل یاد دلاتی ہے وفا
حوصلہ اور، مصائب میں بڑھاتی ہے وفا
وار سب ظلم و تعدی کے اُچٹ جاتے ہیں
تاج گرے جاتے ہیں اور تخت اُلٹ جاتے ہیں
کہیں لفظوں سے بنائی گئی تصویر وفا
کیا مّفسّر نے لکھی ہے کوئی تفسیر وفا
کس کی آنکھوں کے مقدر میں ہے تنویر وفا
پوچھو بیمارِ محبت ہی سے تاثیرِ وفا
مرضِ عشق کی شِدت میں یہ کام آتی ہے
ایک پیغامِ حیاتِ ابدی لاتی ہے
سُن کے اعجازِ وفا فکر نے پہلو بدلا
نِگہِ شوق نے میداں کی فضا کو دیکھا
خوش ہونٹوں پہ مچلنے لگی ساحل کی ہوا
یاد عباسؑ کی آئی جو ہُوا ذکرِ وفا
دل کی آنکھوں نے کبھی نقشِ قدم کو دیکھا
کبھی قامت کو کبھی مشک و عَلم کو دیکھا
کہاں انس کے اوصاف کہاں میری زباں
اس کے انداز شجاعت پہ بشر ہے حیراں
کبھی جعفرؑ کا نشاں ہے کبھی حیدرؑ کا نشاں
اک اشارے سے بدل دیتا ہے تقدیرِ جہاں
ہے یہ اعزاز کہ "دلبند" کہا ہے اس کو
فاطمہ زہراؑ نے "فرزند" کہا ہے اس کو
کیسے نظروں میں سمائے بنی ہاشم کا قمر
جس کی پیشانی پہ رہتا ہے سدا نُورِ سحر
جس کے چہرے کو تکا کرتی ہے تاروں کی نظر
نام سے جس کے نمایاں ہے جلالت کا اثر
نازِ تخلیق ہے تخلیق کا معیار ہے یہ
حُسن کا عشق کا دونوں کا علمدار ہے یہ
قائم جعفری
سید محمود علی
No comments:
Post a Comment