رنگ تعبیر کا ٹوٹے ہوئے خوابوں میں نہیں
چھاؤں کا لمس کہیں جیسے سرابوں میں نہیں
کر دیا ساحرِ تہذیب نے پتھر ان کو
چہرے لمحوں کے وہ ریشم کی نقابوں میں نہیں
آ کے ساحل پہ ہوس کے نہ یوں موجوں سے ڈرو
رنگ گہرائی میں پاؤ گے حبابوں میں نہیں
انگ انگ اس کا تھا اک نیلے نشے میں ڈوبا
ابدی کیف وہ بوتل کی شرابوں میں نہیں
میری اک بات پہ کیں اس نے ہزاروں باتیں
حسنِ مقصود مگر اس کے جوابوں میں نہیں
اب تو آسیب مسلط ہے یہاں حسرت کا
آس کی کوئی پری دل کے خرابوں میں نہیں
اس سے ٹکرا کے بکھرنے میں جو لذت ہے سلیم
اس قدر حظ، شکست اور عذابوں میں نہیں
سلیم شہزاد
No comments:
Post a Comment