وقت سے یوں کریں گے کوئی ہاتھ ہم
اک الارم پہ رکھ لیں گے دن رات ہم
اک ہوا تھی جو پورا شجر لے اُڑی
روز کرتے تھے تر، جس کے پھل پات ہم
چھُپ کے بیٹھے ہوئے ہیں عقب میں تِرے
اپنی جانب لگائے ہوئے گھات ہم
اس خلا کے بڑے کنیوس پر کہیں
پینٹ کر دیں دُعا میں اُٹھے ہاتھ ہم
اک توازن میں بہتی ہوئی اے ندی
تجھ میں بھر دیں یہ اندر کی برسات ہم
دیکھ لیں پھر یہ مصرع مکرّر نہیں
کل دوبارہ ملیں ساڑھے چھ، سات، ہم
چودہ رنگوں سے راشد بنایا جہاں
سات سمتوں میں چلتے ہوئے ساتھ ہم
راشد امام
No comments:
Post a Comment