Wednesday, 30 June 2021

وہی ہوا کہ خود بھی جس کا خوف تھا مجھے

 وہی ہوا کہ خود بھی جس کا خوف تھا مجھے

چراغ کو جلا کے بس دھواں ملا مجھے

کبھی مٹا سکا نہ کوئی دوسرا مجھے

شکست دے گئی مگر مِری انا مجھے

جواب اس سوال کا بھی دے ذرا مجھے

اڑا کے لائی ہے یہاں پہ کیوں ہوا مجھے

ہری بھری سی شاخ پر کھلا ہوا گلاب

نہ جانے ایک خار کیوں چبھا گیا مجھے

اس اجنبی سے واسطہ ضرور تھا کوئی

وہ جب کبھی ملا تو بس مرا لگا مجھے

ابھی نہ مجھ کو ٹوکیے ابھی تو زندگی

سنا رہی ہے گیت روز اک نیا مجھے

یہ مدتوں کے بعد جو کہی غزل ہلال

وہ کون ہے جو آج یاد آ گیا مجھے


ہلال فرید

No comments:

Post a Comment