Tuesday, 29 June 2021

درد کی رات گزرتی ہے مگر آہستہ

 درد کی رات گزرتی ہے، مگر آہستہ

وصل کی دھوپ نکھرتی ہے مگر آہستہ

آسماں دور نہیں، ابر ذرا نیچے ہے

روشنی یوں بھی بکھرتی ہے مگر آہستہ

تم نے مانگی ہے دعا ٹھیک ہے خاموش رہو

بات پتھر میں اترتی ہے، مگر آہستہ

تیری زلفوں سے اسے کیسے جدا کرتا میں

زندگی یوں بھی سنورتی ہے، مگر آہستہ


فاروق نازکی

No comments:

Post a Comment