لفظ خاموش ہیں
ہمہ تن گوش ہیں
ان میں جادو ہے اک
لوگ بے ہوش ہیں
نظم لفظوں میں بھیگا ہوا خواب ہے
قافیوں کا ردیفوں کا گرداب ہے
نظم اٹھتی ہواؤں کا محراب ہے
بحر پاتال ہیں شعر سیلاب ہیں
نظم صحرا میں تپتی ہوئی دھوپ ہے
نظم میں رنگ ہیں نظم میں روپ ہے
نظم گہرے چناروں کی اک شام ہے
نظم مدہوش رندوں کا کہرام ہے
نظم جنگل میں بجتا ہوا ساز ہے
نظم لفظوں میں پوشیدہ اک راز ہے
نظم شاہین بچے کی پرواز ہے
نظم معصوم لوگوں کی آواز ہے
نظم بکھرا ہوا عالمی خواب ہے
اور خوابوں سے بنتی صدا نظم ہے
سرخ ہونٹوں سے ہوتی ادا نظم ہے
محمد معوذ حسن
No comments:
Post a Comment