پاؤں، زنجیر پرکھنے میں ابھی کچے ہیں
یا تِرا حکم سمجھنے میں ابھی کچے ہیں
پیڑ، بے موسمی باتوں کا بُرا مان گیا
ورنہ کچھ پھل ہیں جو چکھنے میں ابھی کچے ہیں
ہم سے کیا ہو گی تعلق میں بُرائی صاحب
ہم تو بُہتان ہی گھڑنے میں ابھی کچے ہیں
اتنے لوگوں میں کوئی ڈھنگ کا وحشی نہ ملا
ایک دو ہیں بھی تو ہنسنے میں ابھی کچے ہیں
قہقہہ مار کے ہنسنے میں مہارت ہے ہمیں
لیکن اک زخم کو ڈھکنے میں ابھی کچے ہیں
علی زیرک
No comments:
Post a Comment