Monday, 28 June 2021

جاگتی آنکھوں میں کیسے خواب در آنے لگے

 جاگتی آنکھوں میں کیسے خواب در آنے لگے

راستے میری طرف لے کر سفر آنے لگے

دور تک اڑتی ابابیلوں کی ڈاریں دیکھ کر

اونگھتے پنچھی کے بھی جنبش میں پر آنے لگے

کائناتِ شب میں چشمِ جستجو بھٹکی پھری

روشنی کے منطقے آخر نظر آنے لگے

کتنی درد انگیز تھی سُونی منڈیوں کی پکار

اُڑ گئے تھے جو پرندے، لوٹ کر آنے لگے

گھر تو اک دن ہم نے بھی چھوڑا سدھارتھ کی طرح

پھول آنگن کے مگر ہر سُو نظر آنے لگے

دھجیاں دامن کی پہلے ہی نمایاں تھیں بہت

کچھ نئے الزام بھی اب میرے سر آنے لگے


پرویز بزمی

No comments:

Post a Comment