جاگتی آنکھوں میں کیسے خواب در آنے لگے
راستے میری طرف لے کر سفر آنے لگے
دور تک اڑتی ابابیلوں کی ڈاریں دیکھ کر
اونگھتے پنچھی کے بھی جنبش میں پر آنے لگے
کائناتِ شب میں چشمِ جستجو بھٹکی پھری
روشنی کے منطقے آخر نظر آنے لگے
کتنی درد انگیز تھی سُونی منڈیوں کی پکار
اُڑ گئے تھے جو پرندے، لوٹ کر آنے لگے
گھر تو اک دن ہم نے بھی چھوڑا سدھارتھ کی طرح
پھول آنگن کے مگر ہر سُو نظر آنے لگے
دھجیاں دامن کی پہلے ہی نمایاں تھیں بہت
کچھ نئے الزام بھی اب میرے سر آنے لگے
پرویز بزمی
No comments:
Post a Comment