Wednesday 30 June 2021

شہر بے مہر میں ملتا کہاں دلدار کوئی

 شہرِ بے مہر میں ملتا کہاں دلدار کوئی

کاش مل جاتا ہمیں مجمعِ اغیار کوئی

چیر دے قلب زمیں توڑ دے زنجیرِ زماں

چھیڑ اب ایسا فسانۂ دلِ نادار کوئی

نالۂ دل سے جگر ہوتا ہے چھلنی یا رب

صبر کرتی ہوں تو چل جاتی ہے تلوار کوئی

بُجھ گئی راہِ وفا ڈُوب گئی صبحِ امید

لے کے اب آئے گا کیا وعدۂ دیدار کوئی

ایک ایک کر کے ہوئی بزمِ محبت خالی

نظر آتا نہیں اب یارِ وفادار کوئی

جانے کِن جبر کی زنجیروں میں جکڑی ہے حیات

ہیں کہیں چارۂ وحشت کے بھی آثار کوئی

یہ زباں بندیٔ احساس یہ جبرِ حالات

جُرم ہے کھولے اگر دیدۂ بیدار کوئی


ساجدہ زیدی

No comments:

Post a Comment