Monday, 28 June 2021

سب پھول ترے زخم ہمارے ہیں کم و بیش

سب پھول تِرے زخم ہمارے ہیں کم و بیش

افلاک پہ جتنے بھی ستارے ہیں کم و بیش

اک تیرے تغافل کو خدا رکھے، وگرنہ

دنیا میں خسارے ہی خسارے ہیں کم و بیش

وه جس جگہ مارے گئے اجداد ہمارے

ہم بھی اسی دریا کے کنارے ہیں کم و بیش

موسم کی گھٹن ہو کہ زمانے کا چلن ہو

سب تیرے بچھڑنے کے اشارے ہیں کم و بیش

یہ آنکھیں اگر ہیں تو بہت کم ہیں یہ آنکھیں

ہر سمت یہاں تیرے نظارے ہیں کم و بیش

سب عشق میں اندازے غلط نکلے ہمارے

جو شرط لگائی ہے وه ہارے ہیں کم و بیش

اس گھر کی فضا نے مجھے مانا نہیں اب تک

پینتیس برس جس میں گزارے ہیں کم و بیش


جمال احسانی

No comments:

Post a Comment