Wednesday, 30 June 2021

ہمارے اجداد وہ حروف تہجی بھول گئے تھے

 فراموشی کی مختصر تاریخ 


ہمارے اجداد وہ حروفِ تہجی بھول گئے تھے

جن کی مدد سے وہ چیزوں

لوگوں اور وقت کو یاد کرتے تھے

اب ہمیں چاہیۓ نئے حروفِ تہجی

تاکہ ہم وہ لفظ بنا سکیں

جو ہمارے دہانوں کے ناپ کے ہوں

ہمیں چاہیۓ کچھ گھوڑے

تاکہ ہم اپنے دماغوں کی رفتار جان سکیں

اور ہمیں چاہیۓ اپنی امیدوں کے کچھ وارث

ہمارے خوابوں نے کھانا پینا ترک کر دیا ہے

کوئی وجہ بتائے بغیر

وہ صرف اس لڑکی کے انتظار میں رہتے ہیں

جو لنچ کے وقت صرف ایک پھول خریدنے آتی ہے

ریجنٹ اسٹریٹ پر

اور سب سے عمدہ پیلے گلاب کا انتخاب کرتی ہے

اپنی سفید چھڑی سے

یہ تو ہمیں پتا ہے

موت کا خود رو درخت پوری طرح جڑیں پکڑ چکا ہے

اور اس کی شاخیں تک دکھائی دینے لگی ہیں

ہمارے خوابوں کی آنکھوں اور کانوں سے

ہمیں اونٹ بنانے کی کوشش مت کرو

ہم کچھوے ہی رہیں گے

اس ریت پر جو ماضی بھی ہے اور مستقبل بھی

اور جس دن یہ ریت ہمیں چھوڑ کر چلی جائے گی

ہم ایک حکایت میں تبدیل ہو جائیں

جو کسی کی سنی ہوئی بھی ہو سکتی ہے


انور سن رائے

No comments:

Post a Comment