میں کہہ رہی ہوں کہ لوٹ آؤ
جی میں ہوں قاصد
پیام یہ ہے وہ کہہ رہی تھی
یہ اس سے کہنا
میں کہہ رہی ہوں کہ لوٹ آؤ
کہ اب تو ساون کی پہلی بارش کی پہلی بوندیں تمہیں پکاریں
میری سماعت تمہارے قدموں کی آہٹوں کو ترس رہی ہے
یہ اس سے کہنا
کہ میرے جیون کے سارے حصوں میں جالے مکڑی نے بُن دئیے ہیں
اُداسی پھیلی ہے چاروں جانب
ہوائیں مجھ سے اُلجھ رہی ہیں
چراغ دل کو جلا رہے ہیں
جلا رہے ہیں ہمارے سپنے
تمہاری یادیں، تمہاری باتیں
تمہی بتاؤ
میں کیسے روکوں
میں کیسے سب کو سنبھال رکھوں
یہ اس سے کہنا
کہ شام ہوتے ہی میری آنکھوں سے گرتے موتی
آہ بھر کے
اُداس لہجے میں پوچھتے ہیں؛ کہاں گیا وہ؟
یہ اس سے کہنا
بس ایک چھوٹی سے التجا ہے
کہ لوٹ آؤ
بہار میں بھی خزاں کو محسوس کر رہی ہوں
میں مر رہی ہوں
یہ اس سے کہنا
میں مر رہی ہوں
نثار سلہری
No comments:
Post a Comment