Thursday, 1 July 2021

جی میں ہوں قاصد پیام یہ ہے

 میں کہہ رہی ہوں کہ لوٹ آؤ


جی میں ہوں قاصد

پیام یہ ہے وہ کہہ رہی تھی

یہ اس سے کہنا

میں کہہ رہی ہوں کہ لوٹ آؤ

کہ اب تو ساون کی پہلی بارش کی پہلی بوندیں تمہیں پکاریں

میری سماعت تمہارے قدموں کی آہٹوں کو ترس رہی ہے

یہ اس سے کہنا

کہ میرے جیون کے سارے حصوں میں جالے مکڑی نے بُن دئیے ہیں

اُداسی پھیلی ہے چاروں جانب

ہوائیں مجھ سے اُلجھ رہی ہیں

چراغ دل کو جلا رہے ہیں

جلا رہے ہیں ہمارے سپنے

تمہاری یادیں، تمہاری باتیں

تمہی بتاؤ

میں کیسے روکوں

میں کیسے سب کو سنبھال رکھوں

یہ اس سے کہنا

کہ شام ہوتے ہی میری آنکھوں سے گرتے موتی

آہ بھر کے

اُداس لہجے میں پوچھتے ہیں؛ کہاں گیا وہ؟

یہ اس سے کہنا

بس ایک چھوٹی سے التجا ہے

کہ لوٹ آؤ

بہار میں بھی خزاں کو محسوس کر رہی ہوں

میں مر رہی ہوں

یہ اس سے کہنا

میں مر رہی ہوں


نثار سلہری

No comments:

Post a Comment