دِیے جلتے رہو
میرے کمرے کی دیوار
میں اک پرانے سے
وحشت زدہ طاق میں
میری سانسوں کی آندھی سے بچتے ہوئے
دِیے جلتے رہو
دِیے بُجھنا نہیں
کیا میں نے تیری جلتی ہوئی لَو پر
اپنے بچپن کے سب خواب چِھڑکے نہ تھے؟
کیا میں نے اپنی یادوں کی کچی سی، چکی سے
اشکوں کا نکلا ہوا سارا تیل تجھ میں ڈالا نہ تھا؟
دیکھ مجھ کو دِیے
میری تنہائی میں میری ہستی کے غم کے سوا کچھ نہیں
دیکھ بُجھتے دِیے
تیری دم توڑتی سرد سُرخ لَو سے میرا سایہ بھی روپوش ہونے لگا
یہ پردیس ہے میرا کوئی نہیں، بات کس سے کروں؟
میری حالت پہ کچھ ترس کھا لے دِیے، اور جلتا رہے
تاکہ پچھلے پہر رات کے شور میں
اپنے سائے سے باتیں میں کرتا رہوں
اور جی جی کے ایسے ہی مرتا رہوں
دِیے جلتے رہو
دِیے جلتے رہو
طلحہ رحمان
No comments:
Post a Comment