جھوٹے، کمزور سہاروں سے نکل آتے ہیں
ہم نے سوچا ہے کہ خوابوں سے نکل آتے ہیں
ہم سے سادہ بھی کوئی آس کا جگنو تھامے
اپنے تاریک مکانوں سے نکل آتے ہیں
بات کرتے ہیں محبت کا بھی حل نکلے گا
کتنے پہلو ہیں جو باتوں سے نکل آتے ہیں
درد بہلانے کو لیتے ہیں کتابوں میں پناہ
پھر نئے درد کتابوں سے نکل آتے ہیں
لاکھ چاہوں یہ محبت ابھی پوشیدہ رہے
آپ تو آپ ہیں مصرعوں سے نکل آتے ہیں
خار رستوں پہ تِرے ساتھ چلے ہیں تو کھُلا
اس طرح پھُول بھی خاروں سے نکل آتے ہیں
ثروت مختار
No comments:
Post a Comment