پرائے زخموں سے آگہی کے خمار اتریں
ہماری آنکھوں سے تیرے ہجراں کے وار اتریں
گنوائے جانے کا ایک پل بھی نہیں بچا ہے
وہ کہہ رہا ہے کہ پار اتریں، تو پار اتریں
مسیحا اب یہ تھکن تو جاں لیوا ہو چلی ہے
مسیحا روحِ نحیف سے سارے بار اتریں
چلو کہ یہ اس کے ہجر کی آخری کڑی ہے
چلو کہ اب آخری پڑاؤ پہ یار اتریں
ہم ایسے حرماں نصیب جن راستوں پہ چل دیں
ہمارے قدموں سے قبل راہوں پہ خار اتریں
میں ایک ہی خواب کتنی راتوں سے دیکھتی ہوں
کوئی شکاری ہے اور پرندوں کے ڈار اتریں
سارہ تعبیر
No comments:
Post a Comment