Tuesday, 29 June 2021

پرائے زخموں سے آگہی کے خمار اتریں

 پرائے زخموں سے آگہی کے خمار اتریں

ہماری آنکھوں سے تیرے ہجراں کے وار اتریں

گنوائے جانے کا ایک پل بھی نہیں بچا ہے

وہ کہہ رہا ہے کہ پار اتریں، تو پار اتریں

مسیحا اب یہ تھکن تو جاں لیوا ہو چلی ہے

مسیحا روحِ نحیف سے سارے بار اتریں

چلو کہ یہ اس کے ہجر کی آخری کڑی ہے

چلو کہ اب آخری پڑاؤ پہ یار اتریں

ہم ایسے حرماں نصیب جن راستوں پہ چل دیں

ہمارے قدموں سے قبل راہوں پہ خار اتریں

میں ایک ہی خواب کتنی راتوں سے دیکھتی ہوں

کوئی شکاری ہے اور پرندوں کے ڈار اتریں


سارہ تعبیر

No comments:

Post a Comment